کھیل اور تعلیم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم

جسمانی تعلیم اور مختلف قسم کے کھیل طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے بے حد ضروری ہیں۔بچپن میں فطری طور پر بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، جس سے اُن کے اعضائے جسمانی کی ورزش ہوتی رہتی ہے، جو اُن کی بہتر نشوونما کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کھیل جہاں بچوں کی بہتر نشوونما میں معاون ہوتی ہے وہیں طلبہ کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں بھی مدد ملتی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مختلف قسم کے کھیل اور صحت مندانہ سرگرمیاں سکولز میں کروائی جاتی رہی ہیں تاکہ بچوں کو صحت مند بنا کر مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ صحت مند بچے ہی تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے سکولز میں جسمانی تعلیم اور کھیلوں پر زور دینے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ہاں اکثر اساتذہ حتی ٰ کہ والدین بھی یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بچہ پڑھائی میں تیز نہیں ہے۔ایسے اساتذہ اوروالدین کے لیے ایک مثل ہے کہ ”تیز ہوتے ہیں بچے کھیل سے جس طرح گاڑی کے پہیے تیل سے،، جی ہاں! کوئی بھی طالب علم چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہو جب تک جسمانی طور پر فٹ نہیں ہوگا اس وقت تک وہ بہتر تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ جسم کو فٹ رکھنے کے لیے ورزش بے حد ضروری ہے اور جسمانی ورزش کا تعلق بالواسطہ یابلا واسطہ کھیلوں سے ہی ہوتا ہے۔ فٹنس کے حوالے سے یہ قول مشہور ہے کہ”جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوں تو ان کے اسپتال ویران ہوں گے اور جس ملک کے کھیل کے میدان ویران ہوں تو ان کے ہسپتال آباد ہوں گے،،۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکیڈمک ایجوکیشن کی طرح فزیکل ایجوکیشن کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیاجاتاہے۔

جس طرح نصابی تعلیم ذہنی صلاحیتیں اور بہتر کردارپروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اسی طرح جسمانی تعلیم نوجوانوں میں نظم ونسق، احساس ذمہ داری اور قائدانہ صلاحیتوں کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی تعلیم کی شرح ترقی یافتہ ملکوں کی بہ نسبت کم دیکھنے میں آتی ہے لیکن ماضی کے برعکس ہمارے یہاں صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں کیاسکولوں میں فزیکل ایجوکیشن کے فروغ کے لیے اسکولوں میں ہی مختلف گیمز کا انعقاد کروایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کی کردار سازی کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی نشوونما ممکن ہو۔ ان ممالک میں کھیل کوبچوں کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی اور عملی قابلیت میں اضافے کے لئے ایک تعلیمی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسکولوں میں بچوں کو صرف کتاب اور نصاب پر توجہ مرکوز رکھنے کا کہاجائے تو بہت جلد طلباء بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی توجہ پڑھائی پر مرکوزرکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں کھیل کھیل میں پڑھایا اور سکھایا جائے۔ جب تک طلبہ پڑھائی کو انجوائے نہیں کریں گے سیکھ نہیں پائیں گے،یہی وجہ ہے کہ چھوٹے بچوں کوکلاس روم میں مختلف گیمز زیادہ سے زیادہ کھلائے جاتے ہیں۔
بچہ جب کھیلتا ہے تو اسے زبانی یا اشاروں کی مدد سے دوسروں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح کرنے سے اسے دوسروں کی سوچ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔جب کھیل میں بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کے نقطہ نظر کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی، قاعدوں، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ ومسابقت میں اعتدال، اطاعت وقیادت اور دھاندلیوں کامقابلہ اور اپنی باری کاانتظار کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ہم جولیوں کاپاس ولحاظ کرنا، لاقانونیت کی حد تک بڑھتی ہوئی آزادی کو دوسروں کی خاطر محدود کرنا اور اپنی خواہشات اور ذاتی دلچسپیوں کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا بھی وہ منظم کھیلوں کے ذریعے سیکھتے ہیں،


علم پاسیبل پروجیکٹ میں پاکستان کے مختلف اضلاع میں کھیل کے ذریعے تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بین الاقومی ادراہ برٹش کونسل،اسکول آف لیڈرشپ کے ذریعے مقامی تنظیموں کے تعاون سے دوستی پروگرام شروع کیے ہوئے ہیں جس کا بنیادی مقصد اسکولوں کے اندر ایسادوستانہ ماحول پروان چڑھانا ہے جہاں پر بچے اسکولوں میں خوشی خوشی آسکیں اور کھیل کود کے ساتھ پڑھائی کو بھی جاری رکھ سکیں،اس پروگرام میں منتخب اسکولوں میں اسپورٹس کٹ فراہم کی جاتی ہے،اسکولوں سے منتخب اساتذا کو دوستی ماڈیول پر ٹریننگ کے مراحل سے گزاراجاتاہے جس کے بعد سرگرمی پلان کے ذریعے اسکولوں کے اندر مختلف سرگرمیاں کی جاتی ہے جن سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مد د ملتی ہے،اس پروگرام میں سال میں دو اسپورٹس فسٹیول کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں ان منتخب اسکولوں کے بچوں کو شریک ہونے کے مواقع فراہم کی جاتے ہیں،



لسبیلہ میں سماجی تنظیم” وانگ” عرصہ داز سے لسبیلہ میں برٹش کونسل کے ساتھ علم پاسیبل پروجیکٹ میں پارٹنر کی حیثیت سے کام کررہی ہے،اس پروگرام میں جہاں اسکولوں کے اندر داخلہ مہم میں محکمہ تعلیم کی سپورٹ کی جاتی ہے وہی وہ اسکولوں میں ایسے دوستانہ ماحول کے فرو غ کے لیے بھی کوشاں ہے جہاں پر کھیل کے ذریعے تعلیم کو فروغ کو موثر بنایا جائے اس سلسلے میں بیلہ و اوتھل کے بیس اسکولوں کو دوستی اسکول منتخب کیا گیاہے جن کو کھیلوں کا سامان فراہم کیا گیاہے اور اساتذہ کو ٹریننگ بھی کروائی گی ہیں جہاں پر مختلف سرگرمیاں منعقد کی جارہی ہے،اس سلسلے میں سنڈمن پارک اور گرلز اسکو ل بلوچی گوٹھ میں اسپورٹس فسٹیول بھی منعقد کیا جاچکاہے اس سال ماہ نومبر میں سالانہ اسپورٹس فیسٹول منعقد کیاجائے گاجس میں لسبیلہ بھر سے بیس اسکولوں کے چار سو سے زائد بچے اپنی پرفارمنس کا مظاہرہ کریں گے،جن میں زیادہ مقابلوں میں جتنے والے اسکول کو بہترین دوستی اسپورٹس اسکول کی ٹرافی بھی دی جائے گی۔

صدام احمد رونجھو،دوستی کوآرڈینیٹر وانگ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like these